A Tribute To The Legendary Playback Singer Masood Rana
1963ء کا سال ، مسعودرانا کے فلمی کیرئر کا دوسرا سال تھا جس میں انھوں نے سات فلموں میں بارہ گیت گائے تھے۔ اس سال کی سب سے اہم بات ان کی پہلی پنجابی فلم رشتہ (1963) کی ریلیز تھی۔
مسعودرانا کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ وہ کراچی سے فلمی کیرئر کا آغاز کرنے والے پہلے گلوکار تھے جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اپنے پہلے ہی سال ، پاکستان کے فلمی مرکز لاہور کے موسیقاروں کی نظر میں آگئے تھے۔ ان سے قبل مہدی حسن اور احمدرشدی جیسے عظیم گلوکاروں نے بھی کراچی ہی سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا لیکن انھیں اپنا آپ منوانے میں کئی سال لگ گئے تھے۔
ان کے علاوہ کراچی کے متعدد باصلاحیت گلوکار اور بھی تھے جو لاہور کے موسیقاروں کی بے اعتنائی کا شکار رہے تھے جن میں خاص طور پر سلیم شہزاد اور محمد افراہیم وغیرہ شامل تھے جبکہ مجیب عالم ، اخلاق احمد اور نیرہ نور جیسے اعلیٰ پائے کے گلوکار بھی زیادہ نہیں گا سکے تھے کیونکہ وہ لاہور سیٹ نہیں ہو سکے تھے۔
مسعودرانا کی پہلی فلم انقلاب صرف کراچی تک محدود رہی تھی لیکن ان کی دوسری فلم بنجارن ، ملک بھر میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے فوراَ بعد بابائے موسیقی جی اے چشتی نے مسعودرانا کو لاہور بلا بھیجا تھا اور اپنی ایک زیر تکمیل فلم رشتہ میں ایک قوالی
گانے کا موقع دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس قوالی میں گلوکار منیر حسین کی موجودگی میں رانا صاحب کو اولیت دی گئی تھی حالانکہ اس وقت تک وہ سلیم رضا کے بعد دوسرے کامیاب ترین گلوکار تھے۔ اس فلم اور گیت پر مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
مسعودرانا دیکھتے ہی دیکھتے فلمی گائیکی پر چھا گئے تھے اور خصوصاَ پنجابی فلمی گائیکی میں تو ان کی اجارہ داری کا یہ عالم تھا کہ ان کے گائے ہوئے کل پنجابی فلمی گیتوں کی تعداد ، پاکستان کے دیگر پانچ بڑے گلوکاروں یعنی عنایت حسین بھٹی ، سلیم رضا ، منیر حسین ، مہدی حسن اور احمدرشدی کے گائے ہوئے پنجابی فلمی گیتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
15 مارچ 1963ء کو ریلیز ہونے والی پنجابی فلم رشتہ کا سب سے مقبول گیت
تھا جسے آئرن پروین نے گایا تھا۔
اس فلم میں پچاس کے عشرہ کی ممتاز گلوکارہ زبیدہ خانم کا ایک گیت بھی تھا جو اس وقت تک فلم انڈسٹری کو خیرآباد کہہ چکی تھیں ، اسی لیے ان کا کوئی دوگانا ، مسعودرانا کے ساتھ نہیں ملتا۔ اس فلم کے دیگر گلوکاروں میں ملکہ ترنم نورجہاں ، عنایت حسین بھٹی اور احمدرشدی بھی تھے جبکہ گیت وارث لدھیانوی کے علاوہ احمد راہی نے بھی لکھے تھے ، ان سب کا ذکر آگے آئے گا۔
فلم رشتہ کے فلمساز میاں شفیق تھے جن کے کریڈٹ پر مشہورزمانہ فلم ہمراہی (1966) بھی تھی جو مسعودرانا کے شاہکار فلمی گیتوں کی وجہ سے ایک کلاسک فلم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ چند مزید فلمیں بھی ان کے کریڈٹ پر تھیں۔ اس فلم کے ہدایتکار اور کہانی نویس این ای اختر تھے جن کی یہ تیسری اور آخری فلم تھی۔
فلم رشتہ ، بطور ہیرو ہیروئن ، لی جنڈ جوڑی صبیحہ خانم اور سنتوش کمار کی تیسری اور آخری پنجابی فلم تھی۔ اس سے قبل انھوں نے فلم مکھڑا (1958) اور ناجی (1959) میں بھی مرکزی کردار کیے تھے جبکہ بعد میں چند فلموں میں معاون اداکار کے طور پر بھی نظر آئے تھے۔
اس عظیم جوڑی پر پاکستان فلم میگزین کے سابقہ ورژن میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جا چکا ہے۔
اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس فلم میں معروف اداکارہ عالیہ ایک چائلڈ سٹار کے طورپر دیکھی گئی تھیں اور غالباَ انکی والدہ بھی اس فلم میں تھیں۔ مزاحیہ اداکار البیلا کی بھی یہ بطور اداکار اور گلوکار پہلی فلم تھی۔ دیگر بہت سی فلموں کی طرح یہ فلم بھی نایاب ہے۔